تازہ خبریں

پہلی تصنیف

جس زمانے میں سید مودودی"الجمعیۃ" کے ایڈیٹر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضورﷺ کی توہین کی تھی جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتااس لیے کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور اعلانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔ سید مودودی اس صورتِ حال پر بہت رنجیدہ تھے۔ ان کے دل میں اسلام کی محبت اور مسلمانوں کا درد بھرا ہوا تھا۔ اسلام کی خدمت کرنے کے لیے ان کے دل میں بہت اضطراب تھا۔ انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے دہلی کی جامع مسجد میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی کو خیال آیا کہ کیوں نہ میں ہی یہ کام کروں۔ چنانچہ انہوں نے "الجہاد فی الاسلام" کے نام سے ایک کتاب لکھی۔اس وقت سید مودودی کی عمر24برس تھی۔ اس چھوٹی سی عمر میں ایسی معرکۃ الآراکتاب آپ کا ایک حیرت انگیز اور عظیم الشان کارنامہ تھا جس پر ہر طرف سے آپ کو داد ملی۔ اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایاتھا:۔

اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے

اصلاحِ قوم کاعزم

سید مودودی کے دل میں اسلام کا بہت درد تھا اور وہ اس کے لیے دن رات سوچتے رہتے تھے۔ ان دنوں ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت آج سے بھی زیادہ خراب تھی۔ سید مودودی مسلمانوں کی اصلاح کرنا چاہتے تھےچنانچہ روزنامہ الجمعیت جو کانگرسی مسلمانوں کا اخبار بن گیا تھا اس کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑکر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔ حیدرآباد میں قیام کے زمانے میں سید مودودی نے مختلف کتابیں لکھیں، اس کے ساتھ ہی وہ ہندوستان کے سیاسی حالات اور مسلمانوں کی حالت کا بھی گہرا مطالعہ کرتے رہے ، اس دوران وہ قوم کے اصلاحِ احوال کی مختلف تدبیروں پر بھی مسلسل غور کرتے رہے۔ آخر کار انہوں نے اصلاحِ قوم کے مقصد کے لیے 1932 میں حیدرآباد سے رسالہ"ترجمان القرآن"جاری کیا۔ مسلمانوں کی بھلائی کےلیے وہ جو کام کرنا چاہتے تھے ان کے ذہن میں اس کی ترتیب یہ تھی کہ پہلے مسلمانوں کے ذہنوں سے مغربی قوموں کی نقالی اور مرعوبیت،یورپ کے خیالات اور ان کے طور طریقوں کازور توڑا جائے پھر ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر مسئلے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔

اسلامی قومیت کا نقیب

1938میں کانگرس کی سیاسی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ بہت سے مسلمان اور خود علماء کرام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ہند وؤں کے ساتھ مل گئی۔ کانگرس یہ کہتی تھی کہ ہندوستان کے مسلمان اور ہندو سب مل کر ایک قوم ہیں۔ یہ ایک ایسی خطرناک بات تھی کہ اگر اسے مان لیا جاتاتو ہندوستان میں مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت بالکل ختم ہوجاتی اور ان کا دین بھی خطرے میں پڑ جاتا۔ کانگرس کے اس نظریہ کو "متحدہ قومیت" یا "ایک قومی نظریہ" کانام دیا جاتا تھا۔ سید مودودی نے اس خطرے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جو کتابوں کی صورت میں "مسئلہ قومیت" اور "مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش" حصہ اول و دوم کے ناموں سے شائع ہوئے۔ ان مضامین میں سید مودودی نے زور دار دلائل سے ثابت کردیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں کیونکہ دونوں کا تصور خدا ، مذہبی عقیدہ، رہن سہن اور طور طریقے سب جدا جدا ہیں۔ انہیں ایک قوم کہنا بالکل غلط بات ہے۔ 1940ء کی قرار داد پاکستان کے بعد مسلمانوں کے بڑےبڑے رہنما اور مسلم لیگ کے دوسرے لیڈر بھی یہی بات کہنے لگے ۔ اسے"دو قومی نظریہ"کہاجاتا ہے۔ سید مودودی نے مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کے نظریے کو اتنے اچھے اور عمدہ طریقے سے پیش کیا کہ اس خوبی کے ساتھ اب تک کوئی اور شخص مسلمانوں کے علیحدہ قومی تصور کی مدلل وکالت نہیں کرسکا تھا۔ سید مودودی نے قرآن و حدیث سے دلائل دیے۔ تمام مسلمان لیڈر سید مودودی کی ان کتابوں پر بہت خوش ہوئے اور مسلم لیگ نے انہیں بار بار چھپوا کر عام مسلمانوں میں خوب پھیلایا۔ ان مضامین سے مسلم لیگ کے علیحدہ پاکستان کے مطالبے کو بہت مدد ملی۔ اس طرح سید مودودی پہلے شخص تھےجنہوں نےنظریہ پاکستان کو علمی سطح پر دلائل کے ساتھ پیش کیااور پاکستان کے حق میں دو قومی نظریہ کے لیے زبردست عقلی اور اسلامی دلائل فراہم کے۔ ان دلائل کا کانگرس کے ساتھ وابستہ علماء کے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا۔ اس کے بعد پاکستان کا تصور مسلمانوں میں پختہ ہوگیا اورمسلم لیگ کے علیحدہ اسلامی اور قومی وطن کی مہم کو سید مودودی کے ان دلائل سے زبردست تقویت ملی۔ اب یہ مضامین"تحریک آزادی ہند اور مسلمان" کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ پاکستان کے حق میں سید مودودی کی یہ زبردست خدمت ہے جو انہوں نے علمی میدان میں سرانجام دی ۔